بغداد،2دسمبر(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)عراق کی ایک عدالت نے سابق حکمراں بعث پارٹی کی قومی قیادت کی رکن اور ماہر حیاتیات ہدیٰ عماش کو ملک میں ان کی عدم موجودگی میں سرکاری خزانے میں خرد برد کرنے کے الزام میں قصور وار قرار دے کر پندرہ سال قید کی سزا سنائی ہے۔استغاثہ کے مطابق ہدیٰ عماش نے سابق دور حکومت میں نائب وزیر تعلیم کی حیثیت سے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا تھا اور وزارت کی پانچ گاڑیاں کسی اجازت کے بغیر حاصل کر لی تھیں۔63سالہ ہدیٰ عراقی بعث پارٹی کے ایک سابق سینئر عہدے دار صالح مہدی عماش کی بیٹی ہیں۔ان کے والد 1963ءمیں عراق کے وزیر دفاع ،1968ءمیں نائب وزیراعظم اور 1977ءمیں عراق کے سفیر رہے تھے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں سابق صدر صدام حسین کے ذاتی حکم پر 1981ءمیں موت کی نیند سلا دیا گیا تھا۔ہدیٰ عماش ”انتھراکس لیڈی“کے نام سے بھی جانی جاتی ہیں اور انھیں یہ خطاب ان کی علم حیاتیات میں مہارت کی بنا پر دیا گیا تھا۔ انھوں نے جامعہ عراق سے حیاتیات میں ڈگری حاصل کی تھی،مائیکروبیالوجی میں ماسٹر کیا تھا اور پھر امریکن یونیورسٹی میسوری سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔
امریکی فوج نے مارچ 2003ءمیں عراق پر چڑھائی کے بعد مطلوب پچپن عراقی عہدے داروں اور اہم شخصیات کی ایک فہرست جاری کی تھی۔ اس میں ہدیٰ کا نام تریپنویں نمبر پر تھا۔ ان پر دوسری خلیجی جنگ کے بعد عراق کے جوہری پروگرام کو بحال کرنے کا الزام عاید کیا گیا تھا۔انھیں عراقی سائنس دان ناصر الہنداوی نے تربیت دی تھی اور انھیں امریکی حکام ''عراق کے حیاتیاتی ہتھیاروں کے پروگرام کا باوا آدم'' قرار دیتے تھے۔ہدیٰ عماش اس وقت چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہیں اور وہ ممکنہ طور پر تابکاری کے اثرات کا شکار ہوکر اس موذی مرض میں مبتلا ہوئی تھیں۔انھیں امریکی فورسز نے 2003ءمیں گرفتار کیا تھا لیکن 2005ءمیں صدام دور کی سات دیگر شخصیات سمیت رہا کردیا تھا کیونکہ ان کے خلاف جنگی جرائم میں ملوّث ہونے کے کوئی ثبوت نہیں ملے تھے۔ہدیٰ اس کے بعد عراق سے بیرون ملک چلی گئی تھیں۔واضح رہے کہ گذشتہ برسوں کے دوران میں عراقی عدلیہ نے صدام حسین کے دور حکومت سے تعلق رکھنے والے متعدد وزراءاور سینیر انتظامی عہدے داروں کے خلاف ان کی عدم موجودگی میں سزائیں سنائی ہیں لیکن بغداد حکومت انھیں ان کے میزبان ممالک سے بے دخل کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔